Wednesday, July 05, 2006

تصویر کا دوسرا رخ

جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں۔ آپ نے اسلامی کیلینڈر کے مطابق تیرھویں صدی کے آخر اور ۱۴ویں صدی کے شروع میں یہ دعویٰ فرمایا کہ میں وہی مسیح اور مہدی ہوں جس کا امت محمدیہ چودہ سو برس سے انتظار کر رہی ہے اور میرے بعثت کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو دوبارہ دنیا میں غالب کیا جاۓ-

آپ نے اس بات کی اچھی طرح وضاحت فرمائ کہ اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین اور آنحضرت خاتم النبین اور قرآن کریم آخری شرعی کتاب ھے اور اس میں ہرگز کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں-مسیح اور مہدی کا مقصد تو درحقیقت مسلمانوں کو اسلام پر دوبارہ قائم کرنا اور ایمان کو دلوں میں زندہ کرناہے۔ آپ نے فرمایا کہ رسول کریم کی اتباع اور برکت کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ مقام عطا کیا ہے۔

اس دعویٰ کے ساتھ ہی آپ نے قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور امت کےمسلمہ بزرگوں کی تحریرات سے ثابت کیا کہ بنی اسرائیل کی طرف معبوث ہونے والے حضرت مسیح آسمان پر زندہ موجود نہیں بلکہ وفات پا چکے ہیں اور امت محمدیہ میں معبوث ہونے والے مامور کو حضرت مسیح سے بہت سی مشابہتوں کی وجہ سے تمثیلی طور پر مسیح کا لقب دیا گیا ہےجیسا کے کسی بڑے سخی کو حاتم طائ اور بہت بہادر کو شیر کہتے ہیں۔

آپ نے ثابت کیا کہ مسیح اور مہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور اس کی جو علامات قرآن کریم میں اشارة اور احادیث نبویہ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئ ہیں اور بزرگان امت پر اللہ نے جو انکشافات فرمائے ہیں وہ سب آپ کے زمانے اور آپ کی ذات میں پورے ہورھے ہیں۔

۱۳ویں صدی کے آخر تک یہ علامات ایک ایک کر کے پوری ہو رہی تھیں اور عالم اسلام اس موعود کے انتظار میں گھڑیاں گن رہا تھا کہ آپ نے ۱۸۸۲ میں خدا کے الہام سے ماموریت کا دعویِٰٕ فرمایا اور اسلام کے حق میں تمام مذاھب باطلہ خصوصاً عیسائیت اور ہندووں کے خلاف عظیم قلمی اور روحانی جہاد شروع کیا جس کی وجہ سے اس دور کے علماء نے اقرار کیا کہ اسلام کے تیرہ سو سال میں ایسی خدمت کسی نے نہیں کی اور آپ کو فتح نصیب جرنیل قرار دیا۔

۲۳ مارچ کو آپ نے ایک جماعت کی بنیاد رکھی اور پیشگوئیوں کے مطابق اس کا نام جماعت احمدیہ رکھا۔ جس کے ابتدائ ممبر ۴۰ تھے اور اب اس تعداد کروڑہا تک پہنچ چکی ھے۔

آپ کی تائید میں اللہ تعالی نے غیر معمولی آسمانی اور زمینی نشانات دکھائے جن میں خصوصیت کے ساتھ ۱۸۹۴ کا چاند سورج گرھن اور ۱۹۰۲ مین طاعون کا نشان شامل ہے۔ ان کا ذکرالہی نوشتوں میں موجود ہے۔ آپ کے دعوی کے بعد آپ کی سخت مخالفت ہوئی اور آپ اور آپ کی جماعت کو سخت ابتلاوں سے گذرنا پڑا مگروہ بتدریج اپنی منزل کی طرف بڑھ رھی ہے اور اب تک دنیا کے ۱۶۵ ممالک مین اس کی مضبوط شاخیں قایم ہیں

بانی سلسلہ احمدیہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ بمقام لاہور خدا کے حضور حاضر ہو گئے۔ آپ کے بعد خلافت احمدیہ کا سلسلہ شروع ہوا ۔۱۹۴۷ میں جماعت نے تقسیم ہند کے بعد اپنا مرکز قادیان سے ربوہ بنایا۔ اس وقت جماعت کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ہیں جنہوں نے پاکستان کے نا مسائد حالات کی وجہ سے اپنی سکعنت لندن میں اختیار کی ہوئی ہے اور وہاں سے اسلام کی اشاعت کے کام کی نگرانی کر رہے ہیں۔ آپ کا خطبہ جمعہ اور دیگر اہم خطبات ایم ٹی ای چینل کےذریعے تمام دنیا میں دیکہے اور سنے جاتے ہیں۔

اسلام کی خدمات
۱۰۰ زبانوں سے زیادہ میں قرآن کریم کا ترجمہ و احادیث رسول صعلم کا ترجمہ
دنیا بھر میں مساجد کی تعمیر، جن میں اسپین کی ۷۰۰ سال بعد مسجد کی تعمیر اور براعظم آسٹریلیا لی پہلی مسجد شامل ھے۔
دکھی انسانیت کی خدمت میں وسیع پروگرام جن میں اسکول کالج ہسپتال اور غربا کے لئے مکانات کی تعمیر
بوسنیا،بھارت،اور کشمیر ک اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی امداد ۔
تحریک پاکستان میں جب دیگر علماہند نے پاکستان کی مخالفت کی اس ضمن میں گرانقدر خدمات کا انجام دینا۔

شرائط بعیت کا خلاصہ

شرک سے اجتناب
جھوٹ، زنا اور دیگر بدیوں سے بچنا
نماز پنچگانہ اور تہجد کی ادائیگی-درود شریف اور استغفار پڑھنا اور اللہ کی حمدوثنا کرنا
اللہ کی مخلوق کو تکلیف نہ دینا
اللہ کے ساتھ وفاداری اور اس کی رضا پر راضی رہنا
قرآن کریم کی تعلیمات پر کاربند ہونا
تکبر اور نخوت سے بچاو
دین کو دنیا پر مقدم رکھنا
ہمدردی خلق
امام مہدی سے پختہ تعلق

اختلافی مسائل
مرزاغلام احمد قادیانی
امام مہدی کو ماننا ضروری ہے
وفات مسیح
حدیث لا نبی بعدی
بزرگان امت کے نزدیک خاتم النبین کا مسلہ
اسلام میں ارتداد کی سزا
شرائط بعیت
متفرق مسائل

Tuesday, July 04, 2006

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

بی بی سی کے مجتبی حسن صاحب کی تحریر
خاکسار نے صرف کاپی پیسٹ اور عنوان دیا ہے، باقی سارا کریڈٹ مجتبی صاحب کے ذمے، خیال ہے کہ ہماری سیاسی تاریغ کے گمشدہ اوراق کا ہر ایک کو پتہ ہونا چاھیے
پاکستان میں اگرچہ سیاسی حوالوں کی بنا پر گم شدگیوں یا لا پتہ ہونے کی تاریخ کے روایتی دستاویزی شواہد نہیں ہیں لیکن محتاط
اندازے کے مطابق اس کی ابتداء پچاس کے عشرے سے ہی ہو گئی تھی۔

راولپنڈی سازش کیس کے سوا اس دور میں گمشدگیاں اتنی لمبی نہیں ہوتی تھی جو بعد کے ادوار سے موجودہ مشرف دورِ حکومت تک دیکھنے میں آئیں۔

فروری انیس سو اکیاون میں نام نہاد ’راولپنڈی سازش‘ کیس بنا اور اس میں تب کے میحر جنرل اکبر خان کی سربراہی میں بری اور فضائی فوج کے افسران کے ساتھ فیض احمد فیض سمیت بائیں بازو کے بہت سے رہنماؤں، کارکنوں، ادیبوں، دانشوروں اور ٹریڈ یونینسٹوں کو ملوث دکھایا گیا اور پورے ملک میں خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کے ایک بڑے آپریشن میں راتوں رات لوگوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا۔

تبھی پاکستان بننے کے بعد لاہور کے تاریخی شاہی قلعے کے تہہ خانوں میں خفیہ عقوبت خانوں کو پہلی بار استعمال کیا گیا جو پہلے بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کیئے جانے کی تاریخ رکھتے تھے لیکن اس بار ان کی رونق ’راولپنڈی سازش کیس‘ کے وہ اسیر تھے جنہیں تفتیش کے نام پر اٹھایا یا اغواء کیا گیا تھا۔

حسن ناصر نو آزاد مملکت خداداد کے وہ پہلے گمشدہ سیاسی کارکن تھے جنہیں گرفتار کرکے شاہی قلعے میں عقوبتیں دے کر ہلاک کیا گیا۔

’قلعۂ لاہور تیرا ایک قیدی مرگیاتھم گیا شورِ سلاسل کٹ گئی زنجیر پا‘

بہت دنوں بعد حبیب جالب نے حسن ناصر کی لاہور کے شاہی قلعے میں ریاستی تشدد میں ہلاکت پر لکھا تھا۔

انیس سو پچاس کی ہی دہائی میں ہی جب وفاق پاکستان ’مضبوط مرکز‘ کے نام پر چھ یونٹوں یعنی پانچ صوبوں اور ایک ریاست کو دو حصوں: مغربی اور مشرقی پاکستان کی شکل دینے کے لیئے ’ون یونٹ‘ کا نظام متعارف کرایا گیا۔ اس کی مخالفت بنگال اور سندھ کے منتخب ارکانِ اسمبلی نے سب سے زیادہ کی تھی۔

محمد ایوب کھوڑو جیسے ’مرد آہن‘ کو سندھ کا وزیر اعلیٰ بنوا کر سندھ اسمبلی سے ون یونٹ کے حق میں اکثریتی ووٹ دلوانے کا فریضہ سونپا گیا۔

میر غلام علی تالپور کو سندھ اسمبلی کے اجلاس کی صدارت سے روکنے کیلیئے اونٹ پر بٹھا کر دور دراز صحرائے تھر کے شہر مٹھی بھیج دیا گیا اور سندھ اسمبلی سے ون یونٹ کے حق میں ’اکثریتی ووٹ‘ ملنے کے بعد رہا کیا گیا۔

محض گھنٹوں پر مشتمل میر غلام علی تالپور کے اغواء کا یہ واقعہ پاکستان کی نوزائدہ مملکت میں کسح منتخب رکن اسمبلی کے خلاف سیاسی بنا پر ریاستی اغواء کی پہلی واردات تھا۔

سندھ کے موجودہ وزیر اعلی ارباب غلام رحیم کا گاؤں مٹھی تبھی سے حکومت وقت کے سیاسی مخالفین کے لیئے ایک ڈراؤنا خواب بنا ہواہے۔

جنرل ایوب خان اور یحیٰی خان کے دنوں میں بلوچ قوم پرست اور نیپ کے کارکنوں کی گمشدگیاں اور ان پر کوئٹہ کے’ کلی کیمپ، مچھ، میانوالی اور ملتان‘ کی جیلوں، فورٹ سنڈیمن اور بالا حصار کے تفتیشی مراکز میں خفیہ ایجینیسوں کی پُر تشدد کارروائیوں کی اطلاعات عام تھیں۔

لیکن 1971 میں سابقہ مشرقی پاکستان اور پھر بلوچستان میں 1973 کے فوجی آپریشنوں کے دوران گم کیئے جانے والے بنگالی اور قوم پرست کارکنوں کا کوئی شمار نہیں۔

سنہ انیس سو پینسٹھ اور 1971 کی ’پاک بھارت جنگوں‘ کے دوران بھی مبینہ طور سندھ سے ہندو شہریوں کو مہینوں تک کسی بھی طرح کی اطلاع، اندراج اور مقدمات کے بغیر ’نامعلوم مقامات‘ پر نظربند رکھا گیا تھا۔

ایوب خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں سیاسی مخالفوں کے خلاف زبردست انتقامی کارروائیوں کے لیئے پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کا استعمال نہ صرف ’آرڈر آف دی ڈے‘ بن چکا تھا بلکہ اس کا دائرہ سیاسی مخالفین عزیزوں اور اہل خانہ تک پھیل گیا۔

ممتاز علی بھٹو کو 1973 میں سندھ کا وزیراعلٰی بنایا گیا ان کے دور میں انجنئيرنگ کالج جامشورو سے نوجوان لیکچرر اشوک کمار کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد سے اب تک ان کے بارے کچھ پتہ نہیں چل سکا۔

اسی طرح بلوچ قوم پرست رہنما عطاءاللہ مینگل کے بیٹے اسد اللہ مینگل بھی 1976 میں ریاستی ایجنسیوں کے ہاتھ چڑھے اور آج تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے مشہور سیاسی مخالف اور چودھری شجاعت کی والد چودھری ظہور الہی کو بھی بغیر مقدمات کے مہینوں تک مچھ اور کراچی سنٹرل جیلوں میں کسی ریکارڈ کے بغیر رکھا گیا بلکہ مچھ سینٹرل جیل میں تو انہیں مبینہ طور ہلاک کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا تھا جسے اس وقت بلوچستان کے گورنر نواب اکبر بگٹی نے ناکام بنا دیا۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظفرآباد کے قریب دریائے جہلم کے کنارے پُرفضا سرکاری ریسٹ ہاؤس میں جسے ’دلائی کیمپ‘ کے طور پر بھی جانا جاتا تھا، لمبی مدت تک بھٹو حکومت نے مخالف اراکینِ صوبائی میاں افتخار تاری اور دیگر ارکان کو اسیر کیا اور مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا۔

اس کے بعد ضیاءالحق اور ان کی فوجی آمریت کے مخالف سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو سینکڑوں کی تعداد میں آئی ایس آئی اور دیگر فوجی و سول ایجنسیوں نے اغواء کیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

شاہی قلعہ لاہور، ملیر کراچـی، ملتان، لاہور، حیدرآباد اور کوئٹہ کی فوجی چھاونیاں، اٹک قلعہ، کلی کیمپ کوئٹہ، نیپیئر بیرکس کراچی میں قائم مراکز سینکڑوں عقوبت خانوں میں سے وہ چند ہیں جہاں ضیاء حکومت کے سیاسی مخالفوں اور پیپلز پارٹی اور الذوالفقار کے رکن ہونے اور رکن ہونے کے شک میں سینکڑوں مردوں، عورتوں حتٰی کہ بچوں کو بھی غائب کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

کئي ماہ و سالوں تک ’لاپتہ‘ اور زیر تشدد رکھے جانیوالے ان سینکڑوں لوگوں میں 'لیبیا سازش کیس' کے نام پر آغا نوید انکے بہن بھائی اورتمام گھر والے، پیپلز پارٹی کی شاہدہ جبین، ادریس طوطی اور عثمان غنی (جنہیں بعد میں پھانسی دے دی گئي)، ’چاچا صفدر ہمدانی، برگیڈيئر ‏عثمان، میجر آفتاب، لیاقت وڑائچ، چودہری غلام قادر، صوبہ سرحد سے شمس بنیری، فرخندہ بخاری، اور بلوچستان سے حمید بلوچ (جنہیں بعد میں پھانسی دے دی گئی)، جیب جالب بلوچ، صادق عمرانی اور غلام محمد بلوچ اور سندھ سے امداد چانڈیو، محمد خان سولنگی، شیر محمد منگریو، سہیل سانگی، احمد کمال وارثی، شبیر شر' علی حیدر شاہ ، اور قادر جتوئی فقط چند نام ہیں جو اس وقت ریاستی اغواء، غیر چانونی حراست اور حبسِ بے جا کا نشانہ بنے۔

بائيں بازو سے تعلق رکھنے والے سندھی طالبعلم رہنما نذیر عباسی کو کراچی میں فوجی ایجنسیوں کے ہاتھوں تشدد کرکے ہلاک کیا گیا۔ جب کہ جام ساقی کے فوجی ایجنیسوں کی تحویل میں کئی ماہ تک لاپتہ رہنے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو کر ان کی اہلیہ سکھاں جام نے تھر کے گہرے کنویں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔

نذیر عباسی کی بیوہ اور ان کے ساتھی اس ہلاکت کا الزام اس وقت سندھ میں آئی ایس آئی اے کے انچارج کرنل امتیاز (جو بعد میں بریگیڈئر امتیاز کہلائے ) پر لگاتے ہیں۔

انیس سو چورانوے میں بینظیر بھٹو حکومت نے سرکاری تحویل میں تشدد کے ذریعے نذیر عباسی کی ہلاکت کے الزام میں سابق بریگیڈئر امتیاز اور چند فوجی افسروں اور اہلکاروں پر مقدمہ بھی دائر کیا تھا لیکن اس پر کوئی کارروائی سامنے نہیں آ سکی۔

ضیاءالحق کے دنوں میں گم ہونے والے مخالف سیاسی رہنماؤں میں معمر سیاستدان خواجہ خیرالدین، پیپلز پارٹی کے پیار علی الانہ اور غالباً پرویز علی شاہ چند نمایاں نام تھے جنہیں مہینوں تک ملیر کی چھاؤنی میں رکھا گیا تھا۔

سندھ میں جام صادق علی کا دورحکومت مخالف لوگوں کے لیئے ضیاءلحق کی ’ایکسٹینشن‘ ہی سمجھا گیا تھا جس میں خاص طور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں، منتخب ارکان اسمبلی اور الذوالفقار سے تعلق کے نام پر کئی نوجوانوں کو وقتاً فوقتاً سرکاری ایجنسیوں کے ہاتھوں غائب کیا جاتا رہا۔

جام صادق علی کے دنوں میں ’الذوالفقار‘ سے تعلق کے نام پر بیس سے زائد نوجوانوں کو گرفتار کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں مہینوں لاپتہ رکھا گیا۔ جب کہ سیاسی اختلاف رکھنے والی اور سیاسی مخالفین سے رشتہ یا تعلق رکھنے والی عورتوں کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتیاں بھی کی گئی جن میں تحریک پاکستان کے رہنما سردار شوکت حیات کی بیٹی وینا حیات اور پی پی پی کارکن عیسی بلوچ کی بیوی شامل ہیں۔

سی آئی اے سینٹر کراچی، خیرپور ضلع کے کچے کا تھانہ سوراہ اور پولیس لاک اپ مٹھی بھی گمشدہ سیاسی مخالفین کے بندی خانوں کے طور پر جانے جاتے تھے۔

سی آئی اے سینٹر کراچی میں مبینہ طور تشدد سے گزرنے والی خواتین میں سندھ اسمبلی کی موجودہ ڈپٹی سپیکر راحیلہ ٹوانہ بھی شامل تھیں اور ظاہر ہے کہ اس دوران انہیں قانونی طور پر حراست میں نہیں لیا گیا تھا۔

نواز شریف کے دور حکومت میں سندھ میں فوجی آپریشن اور بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں مبینہ طور پر ایم کیو ایم یا موجودہ متحدہ قومی موومنٹ کے کوئی دو سو کے قریب کارکن گم ہوئے جن کے بارے میں آج تک معلوم نہیں۔

ان ادوار میں حیدرآباد اور کراچی میں تو پولیس کے اے ایس آئی سطح کے اہلکاروں نے بھی اپنے خفیہ اور ذاتی ’سیف ہاؤسز‘ قائم کر لیئے تھے جہاں ایم کیو ایم اور دوسرے حکومت مخالف کارکنوں کو قید رکھا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

اسلام آباد اور راولپنڈی میں آئی بی اور دوسری خفیہ ایجینسیوں کے بھی ’سیف ہاؤسز‘ تھے جہاں سے ایم کیو ایم کے گمشدہ ایم این اے کنور خالد یونس ایک عرصے بعد برآمد ہوئے تھے۔ یہاں یہ ذکر نا مناسب نہ ہوگا کہ اکثر ایجنسیوں اور خاص طور پر مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے اداروں کو گرفتاریوں اور خاص طور پر سویلین لوگوں کی گرفتاریوں کا اختیار حاصل نہیں ہے اور نہ ہی یہ ان کے دائرۂ عمل میں شامل ہوتا ہے۔

کراچی اور سندھ آپریشن کے دوران ایس ایج او کی سطح کے پولیس افسر ائیر پورٹ سے ٹیک آف کرتے ہوئے مسافر بردار طیاروں کو واپس لینڈ کروا لیتے اور ان پر سوار ایم کیو ایم کے کارکنوں کو اتار کر مہینوں نامعلوم مقامات پر رکھنے کے بعد یا تو اعتراف کرانے کے بعد سامنے لاتے تھے یا جعلی مقابلوں میں ہلاک دکھا دیتے تھے۔

اہل میثاق جمہوریت (بینظیر بھٹو اور نواز شریف) کی دونوں حکومتوں میں مخالف سیاسی کارکنوں کا یہ ’علاج‘ نکالا ہوا تھا کہ پہلے وہ لاپتہ ہوتے اور پھر ان کی تشدد زدہ یا گولیوں سے چھلنی لاشیں کبھی ایدھی سینٹر والوں کو ملتی تو کبھی بوریوں میں بند۔

نواز شریف دور حکومت میں دودو مہری، عبدالواحد آریسر اور اندر جیت کو بھی مہنیوں فوجی چھاؤنیوں میں زیر حراست رکھا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد اگرچہ ایک الگ موضوع ہے لیکن غیر قانونی حراست اور تشدد لازم و ملزوم ہیں۔

ایف آئی یو (فیڈرل انٹیلیجنس یونٹ ) نے اوٹھو قبیلے کے ایک خاندان کو ڈیڑہ سال تک بغیر کراچی لے جا کر غائب رکھا اور ان میں میں عورتیں اور شیر خوار بچے تک شامل ہیں۔

مجھے نہیں معلوم کے راولپنڈی کی اس انصاری فیملی کا آخر کار کیا بنا تھا جسے آئی ایس آئی نے ’قومی سلامتی‘ کی وجہ سے اغواء کیا تھا اور پھر کئی سال تک ان کا کچھ پتہ نہیں چل سکا تھا۔

نواز شریف حکومت کے خاتمے پر مشرف حکومت نے تو اپنی شروعات ہی سیاسی مخالفین کی گمشدگی سے کی تھی۔ ان کے تب کے گم کردہ سیاسی مخالفین میں سے ایک مثال صدیق الفاروق ہیں جنہیں مبینہ طور ملٹری پولیس کے کرنل ایاز احمد اور میجر ارشد نے گرفتار کیا اور انہیں اقبال ملٹری بیرکس کراچی میں کئی دنوں تک ان کے گھر والوں سے لاپتہ رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس میں ان کی پیٹھ پر کوڑے مارنا بھی شامل تھا۔

بعد میں اپنی قید سے یہ تمام بپتا صدیق الفاروق نے ایک خط میں اپنی اہلیہ کو لکھی۔ مشرف حکومت نے انہیں مہینوں بعد رہا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’صدیق الفاروق کو کہیں رکھ کر بھول گئے تھے‘۔ جب کہ نواز شریف حکومت اور پارٹی کے تب کے ارکان مشاہد حسین ، چودھری نثار علی، پرویز رشید، اور ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار کو ایک سال سے زائد عرصے تک بغیر کسی مقدمے قید تنہائي میں رکھا گیا۔ بعد میں مشاہد حسین نے مشرف حکومت کے ’ہاتھ پر بیعت کرلی‘۔

سن انیس سو ننانوے سے لے کر اب تک پـچھلے چند سال کے دوران گرفتار ہو کر مبینہ طور ’گمشدہ ہونیوالے‘ سیاسی کارکنوں کی تعداد وفاقی وزیر داخلہ بھی بعض اوقات چار ہزار تک بتاتے رہے ہیں اور بعض واقات اس کی تردید کرتے رہے ہیں۔

اور اسی طرح پنجاب پولیس منڈی بہاءالدین سے گرفتار کیئے گۓ عاطف جاوید کی گرفتاری کی تردید کرتی رہی ہے۔

ان گمشدہ لوگوں میں بلوچستان کے گاؤں مند بلو کے ساٹھ سالہ فیض بلوچ بھی شامل ہیں جو حال ہی ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔

فیض بلوچ نے ساحلی بلوچستان کے کچھ مقامی اخباری نمائندوں کو اپنے پر ہونیوالے تشدد کی بپتا کے بارے میں بتایا تھا کہ انہیں پنڈلیوں کے بل گھنٹوں ہوا میں معلق رکھا جاتا تھا اور جب وہ بے ہوش ہو جاتے تو ان کے ہاتھ پاؤں کا مساج کر کے ہوش میں لایا جاتا اور پھر سے تشدد شروع کر دیا جاتا۔ تشدد سے ان کے جسم پر زخم پڑ گۓ۔ بقول فیض بلوچ کے ان زخموں میں نمک چھڑکا گیا جس سے ان کا ایک بازو نارکارہ ہوچکا ہے۔

اسی طرح بلوچستان سے ایک مقامی ٹیچر استاد عبدالستار بلوچ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہیں اغواء کر کے ان کے جسم کو مبینہ طور جلتی سگریٹوں سے داغا گیا۔ بلوچ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر امداد بلوچ کے ساتھ گرفتار ہونے والے اور تشدد سہنے والے ان کے ایک ساتھی اللہ نظر بلوچ کی آنکھیں بری طرح متاثر ہوئي ہیں۔

کوئٹہ، کراچی اور حیدرآباد پریس کلبوں کے باہر اکثر مرد عورتیں اور بچے ان سینکڑوں سیاسی کارکنوں کی تصاویر اٹھائے کھڑے دکھائی دیتے ہیں جن کے بارے میں وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ انہیں کون لے گیا ہے اور کہاں لے گیا ہے لیکن ان کی خواہش صرف اتنی ہوتی ہے کہ اخبار والے ان گمشدہ عزیزوں کے بارے میں کوئی چھوٹی موٹی خبر ہی شائع کر دیں۔ اس کا مقصد عدالتوں کو توجہ کرنا ہوتا ہے تاکہ اگر اب تک انہیں ہلاک نہیں کیا گیا تو ان کی جان بچ سکے اور ان کے لوٹ آنے کا امکان پیدا ہو سکے۔

تبصرہ: ان حالات میں پارلیمنٹ کے کئے گئے فیصلوں کی کیا حثیت رہ جاتی ہے۔

Wednesday, June 28, 2006

بلا تبصرہ

پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں مشتعل افراد نے ایک نوجوان کو پٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی پولیس نے موقع پر پہنچ اس کی جان تو بچالی لیکن اسےگرفتار کرکے اس کے خلاف توھین مذہبی عقائد کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔

گوجرانوالہ کے نواحی گاؤں فتومنڈ کے اس نوجوان پر الزام ہے کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں مبینہ طور پر قرآن پاک کو آگ لگا رہا تھا جب مقامی لوگوں نے گھر کا دروازہ توڑکر اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور مارتے ہوئے ایک قریبی دکان پر لے گئے۔

پولیس کے مطابق مشتعل مظاہرین نے اسے پر پٹرول چھڑک دیا لیکن آگ لگائے جانے سے پہلے ہی وہ خود کو چھڑا کر مقامی ناظم کے ڈیرے میں گھس گیا جہاں پولیس کی بھاری نفری بھی پہنچ گئی۔

پولیس نوجوان کو تھا نے لے گئی تو مشتعل افراد نے تھانے کا گھیراؤ کر لیا پولیس حکام نے ملزم کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی جس پر مظاہرین منتشر ہوگئے۔

سپرنٹنڈنٹ پولیس اروپ ٹاؤن شیخ صدیق نے مقامی اخبارنویسوں کو بتایا کہ ملزم نے پولیس کو بیان قلمبند کرایا ہے کہ اسے اپنی بہن کے کردار پر اعتراض تھا اور وہ نہیں چاہتا کہ مقدس کتاب اس کے کمرے میں رہے۔

پاکستانی پنجاب میں دو ہفتوں کےدوران قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے واقعات پر پرتشدد مظاہروں کا یہ چوتھا واقعہ ہے۔
اس سے پہلے حاصل پور میں دو افراد کو تشدد کر کے ہلاک کیا جاچکا ہے

Tuesday, June 27, 2006

جواب آں عرض ہے


ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ، ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنییوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالی اس عالم گذران سے کوچ کریں گےیہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبین و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ اکمال دین ھو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعےانسان راہ راست کو اختیار کر کےخدا تعالی تک پہنچ سکتا ہے اور ھم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکہتے ہیں قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور اوامر سے زیادہ نہییں ہو سکتا اور نہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغیر کر سکتا ہو۔ اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد و کافر ہے۔

مرزا غلام احمد قادیانی – ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۶۹-۱۷۰
مطبوعہ ۱۳۰۸ ھجری

ہر طرف فکر کوڈوڑا کے تھکایا ھم نے
کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے
ہم ہوئے خیر امم تجھ سے اے خیرالرسل
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑہایا ہم نے

Monday, June 26, 2006

جو چاہے آپ کا حسن کرشمھ ساز کرے

اقوام متحدہ کے ایک نگران ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کہ افغانستان میں پوست کی کاشت اس سال پھر بڑھنے کا خدشہ ہے جس کی بنیادی وجہ یورپ میں چرس کی بڑھتی ہوئی مانگ ہے۔
اکنامکس کا سادہ سا اصول ہے طلب و رسد۔ الزام اب بھی بیچاری افغان قوم پر ہی آئے گا- کم از کم طالبان دور میں اس بات پر تو کنٹرول تھا۔ شائد ایک وجہ یھ بھی ہو قبصہ کرنے کی، سپلائی جو بند ہو گئی تھی

Saturday, June 24, 2006

بلا عنوان

اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہےo


بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھوo

پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے نواح میں مبینہ طور پر قرآن پاک کے اوراق جلائے جانے کے الزام پر مقامی افراد نے احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کی املاک پر حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کی ہے۔

پولیس نےجماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے تین افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

سیالکوٹ کے ضلعی پولیس افسر ڈاکٹر طارق کھوکھر نے کہا ہے کہ احمدی جماعت کے کارکنوں کے خلاف توہین مذہبی عقائد کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جارہا ہے تاہم اس مقدمہ میں توڑپھوڑ اور مظاہرے کا ذکر بھی کیا جائے گا۔

ڈسکہ کے اس گاؤں میں احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والے چند درجن افراد رہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ احمدی جماعت کے ایک رکن کے گھر میں قرآن پاک کے چند اوراق کو نذر آتش کا جارہا تھا کہ ایک ہمسائی خاتون نے دیکھ کر شور مچا دیا۔

جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین کے مطابق ایک آدمی نے مقامی میلے میں جاکر بلا تحقیق قرآن پاک کو شہید کیئے جانے کا اعلان کر دیا تھا جس پر ہجوم نے ان کے کارکنوں کےگھروں اور دکانوں پر حملہ کر دیا۔

جماعت احمدیہ کے ترجمان کے مطابق دو دوکانوں اور ایک سے زائد مکان کو نذر آتش کیا گیا اور لوٹ مار بھی کی گئی۔

پولیس نے ایک گھر کے گیراج اور ایک دکان کے نذر آتش کیے جانے کی تصدیق کی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق احمدی جماعت کے کارکنوں کے ڈیروں پر بھی توڑ پھوڑ کی گئی ہے ان کے ٹریکٹر ٹرالیاں،تیل کے ڈرم اور مرغی فارم بھی تباہ کر دیا گیاہے۔

مظاہرے کی اطلاع ملتے ہیں پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی۔ پولیس نے احمدی جماعت کے تمام کارکنوں اور ان کے اہلخانہ خواتین اور بچوں کو ان کی حفاظت کے پیش نظر گاؤں سے نکال کر کسی دوسرے مقام پر منتقل کر دیا ہے۔

ضلعی پولیس افسر نے بی بی سی کوبتایا کہ ملزموں کا موقف ہے کہ وہ قرآن پاک کے بوسیدہ اوراق کومحض تلف کرنا چاہتے تھے اور ملزموں کے بقول ان کا مقصد توہین کرنا نہیں تھا تاہم مقامی مسلمان آبادی نے اسے اپنے مذہب کی توہین سمجھا تھا۔

جماعت احمدیہ کے بقول وہ چند پرانے اخبارات اور رسائل تلف کر رہے تھے۔

ضلعی پولیس افسر کے مطابق اب حالات معمول پر ہیں تاہم ان کے بقول ابھی اس بات کا تعین ہونا باقی ہے کہ قرآن پاک کو نذر آتش کیے جانے کے واقعہ میں کون کون ملوث ہے؟

واضح رہے کہ چند روز پہلے بھی پنجاب کے شہر حاصل پور میں اس سے ملتے جلتے واقعے میں مشتعل افراد نے ایک مذہبی تنظیم سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو تشدد کرکے ہلاک کر دیا تھا۔

ان پر بھی الزام تھا کہ انہوں نے قرآن پاک کو آگ لگائی تھی۔
اور (اے حبیبِ مکرّم!) صبر کیجئے اور آپ کا صبر کرنا اللہ ہی کے ساتھ ہے اور آپ ان (کی سرکشی) پر رنجیدہ خاطر نہ ہوا کریں اور آپ ان کی فریب کاریوں سے (اپنے کشادہ سینہ میں) تنگی (بھی) محسوس نہ کیا کریںo

Friday, June 23, 2006

سوچو کھبی ایسا ھو تو کیا ہو

یورپی ممالک بشمول امریکہ، کینڈا اور بیشتر عیسائ ممالک کی پارلیمنٹ ایک اہم قانون کا مسودہ منظور کرنے کے لئے پیش کرا چاھتی ہے جس کا نام انہوں نے قانون برائے تحفظ مذھب رکھا ہے۔ اس قانون کے چنیدہ امور مندرجہ ذیل ہیں۔

ملک میں عیسائیت کے علاوہ اور کسی مذہب کی تبلیغ کی اجازت نہیں ہو گی۔اگر کوئ فرد اس جرم کا مرتکب پایا گیا تو تعزیرات ملک کے مطابق اس کی سزا موت ہو گی، لیکن اگر عوام چاہیں تو مجمع اکھٹا کر کے مجرم کو موقع پر ہی موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں۔

آزادی ضمیر کے تحت ہر شہری کو خواہ وہ کسی بہی مذہب سے تعلق رکھتا ہو عیسائیت اختیار کرنے کا پورا حق ہو گا۔ لیکین اس بات کی آزادی نہ ہوگی کہ وہ عیسائیت کو چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کرے۔ایسے مرتد کی سزاحکم فرزند خدا صرف اور صرف موت ہو گی۔

تحفظ ناموس عیسائیت کے مطابق ہر وہ شخص جو حضرت عیسی کو خدا کا بیٹا نہیں مانتا یا تثلیث کا قائل نہیں ہے۔ مرتد، زندیق اور واجب القتل ٹھرایاجائے گا-قانون کے مطابق یا بغیر کسی واضح ثبوت کے ایسے شخص کو قید کرنا اور قتل کرنا نہ صرف جائز بلکہ عیسائیت کے واضح احکام کے مطابق ہوگا۔

عام شہریوں [ صرف عیسائ] کو اس بات کی اجازت ہو گی کہ تحفظ ناموس عیسائیت کا سہارا لے کر کسی بہی غیر عیسائ سے اپنا ذاتی عناد اور دشمنی نکال سکتے ہیں۔ اس بارے میں ان پر کسی قسم کے قانون کا اطلاق نہ ہو گا اور نہ ہی کوئ باز پرس ہو گی۔

اقلیتوں کے تحفظ کی خاطر اس بات کو یقینی بنایا جائے گا۔ کہ غیر مذہب کے لوگ نہ تو اپنی عبادت گاہ بنا سکیں نہ ہی عوامی جگہ اور اپنے ذاتی گھروں میں کسی قسم کی عبادت کر سکیں۔اس قانون کی خلاف ورزی پر کم از کم سزا موت کی ہو گی۔یہ قانون اس بات کی ضمانت ہو گا کہ ملک میں امن و امان رہے اور کسی قسم کا فرقہ وارنہ فساد نہ ہو

ہر وہ عمل جس سے کسی عیسائی کی دل آزاری ہوتی ہو۔ناقابل معافی و ضمانت جرم ہو گا۔دل آزاری کی تعریف ہر شخص کی ذاتی رائے پر منحصر ہو گی۔عوام چاہے تو سزا کا فیصلہ خود بھی کرسکتی ہے۔

خدا ، نبی ؛ فرشتہ ۔ کتاب مقدس کے الفاظ ہیں-غیر عیسائ جب ان الفاظ کو استعمال کرتا ہے تو اس سے ملک کی ایک بڑی آبادی کی دل آزاری ہوتی ہے۔ اس لئے قانون کے مطابق اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کوئ ان الفاظ کا استعمال نہ کرے۔مرتکب کم از کم موت کی سزا کا حقدار ہو گا۔

غیر عیسائ عوام ملک کے حساس اداروں مثلا فوج،پولیس، عدلیہ میں ملازمت کے حقدار نہ ہونگے۔جو لوگ ابھی تعینات ہیں ان کو ایک مخصوص طریق سے دیوار کے کنارے لگایا جائے گا۔

دوہرے طریق انتخاب کے مطابق غیر عیسائ صرف مخصوص نشستوں پر انتخاب لڑنے کا اہل ہو گا،ان نمائندوں کا انتخاب صرف بیرونی مبصروں کو خوش کرنے کے لئے ہو گا نیز ملک کے اہم سیساسی امور میں ان نمائندوں کی رائے کی اہمیت نہیں ہو گی۔

وہ تمام کتب و رسائل اور دیگر موادجو عیسائیت کے خلاف خیالات رکھتی ہیں یا عیسائیت کی تعلیم سے مطابقت نہیں رکھتیں بحق سرکار ضبط کر کے تلف کی جائیں گی۔سرکار اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ سرکاری کتب خانوں میں عیسائیت کے علاوہ کسی اور مذیب کے متعلق کتب موجود نہ ہوں۔

سرکاری سطح پر اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ چرچ ہر ا توار کو دعا کے بعد خصوصی درس کا انتظام کریں جس میں کم از کم دس لوگوں کو اس بات پر تیار کیا جائےکہ غیر عیسائ کی املاک پر حملہ کیا جائے اور ہو سکے تو پانچ سات کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ ایسے لوگوں کو موت کے بعد جنت اور فرزندخدا کی قربت کی بشارت دی جائے گی۔

غیر عیسائیوں کی عبادت گاہوں سے ہر قسم کی عبارت اور کلمے مٹائے جائیں گے۔تاکہ کسی قسم کے نقص امن کا خطرہ نہ ہو۔

کروسیڈ چونکہ ہر عیسائ پر فرض ہے اسلئے سرکاری سطح پر خود کش بمبار اور کروسیڈرز تیار کئے جائیں گے جو دوسرے ممالک میں انارکی پھیلائیں گے۔

حکومت ہر سطح پر اس بات کو لاگو کرے گی کہ تمام غیر مذاہب کے لوگ زرد رنگ کے کپڑے پہن کے باہر نکلیں تاکہ ان کی شناخت ہو سکے۔ ان کو پابند کیا جائے گا کہ ہر مہینےوہ جاکر وہ محکمہ وزارت مذہبی امور میں اپنا اندارج کرائیں چونکہ یہ قانون ملک کی شخصی آزادی سے سو فیصد مطابقت رکھتا ہے اسلئے ملک کے پاسپورٹ اور شناختی کاغذات میں مذہب کے خانے کا اندارج کیا جائے گا جس سے ایسے تمام افراد کی فوری شناخت ممکن ہو اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی جلد از جلد ممکن ہو سکے۔

سوچو کھبی ایسا ھو تو کیا ہو