Wednesday, July 05, 2006

تصویر کا دوسرا رخ

جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں۔ آپ نے اسلامی کیلینڈر کے مطابق تیرھویں صدی کے آخر اور ۱۴ویں صدی کے شروع میں یہ دعویٰ فرمایا کہ میں وہی مسیح اور مہدی ہوں جس کا امت محمدیہ چودہ سو برس سے انتظار کر رہی ہے اور میرے بعثت کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو دوبارہ دنیا میں غالب کیا جاۓ-

آپ نے اس بات کی اچھی طرح وضاحت فرمائ کہ اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین اور آنحضرت خاتم النبین اور قرآن کریم آخری شرعی کتاب ھے اور اس میں ہرگز کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں-مسیح اور مہدی کا مقصد تو درحقیقت مسلمانوں کو اسلام پر دوبارہ قائم کرنا اور ایمان کو دلوں میں زندہ کرناہے۔ آپ نے فرمایا کہ رسول کریم کی اتباع اور برکت کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ مقام عطا کیا ہے۔

اس دعویٰ کے ساتھ ہی آپ نے قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور امت کےمسلمہ بزرگوں کی تحریرات سے ثابت کیا کہ بنی اسرائیل کی طرف معبوث ہونے والے حضرت مسیح آسمان پر زندہ موجود نہیں بلکہ وفات پا چکے ہیں اور امت محمدیہ میں معبوث ہونے والے مامور کو حضرت مسیح سے بہت سی مشابہتوں کی وجہ سے تمثیلی طور پر مسیح کا لقب دیا گیا ہےجیسا کے کسی بڑے سخی کو حاتم طائ اور بہت بہادر کو شیر کہتے ہیں۔

آپ نے ثابت کیا کہ مسیح اور مہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور اس کی جو علامات قرآن کریم میں اشارة اور احادیث نبویہ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئ ہیں اور بزرگان امت پر اللہ نے جو انکشافات فرمائے ہیں وہ سب آپ کے زمانے اور آپ کی ذات میں پورے ہورھے ہیں۔

۱۳ویں صدی کے آخر تک یہ علامات ایک ایک کر کے پوری ہو رہی تھیں اور عالم اسلام اس موعود کے انتظار میں گھڑیاں گن رہا تھا کہ آپ نے ۱۸۸۲ میں خدا کے الہام سے ماموریت کا دعویِٰٕ فرمایا اور اسلام کے حق میں تمام مذاھب باطلہ خصوصاً عیسائیت اور ہندووں کے خلاف عظیم قلمی اور روحانی جہاد شروع کیا جس کی وجہ سے اس دور کے علماء نے اقرار کیا کہ اسلام کے تیرہ سو سال میں ایسی خدمت کسی نے نہیں کی اور آپ کو فتح نصیب جرنیل قرار دیا۔

۲۳ مارچ کو آپ نے ایک جماعت کی بنیاد رکھی اور پیشگوئیوں کے مطابق اس کا نام جماعت احمدیہ رکھا۔ جس کے ابتدائ ممبر ۴۰ تھے اور اب اس تعداد کروڑہا تک پہنچ چکی ھے۔

آپ کی تائید میں اللہ تعالی نے غیر معمولی آسمانی اور زمینی نشانات دکھائے جن میں خصوصیت کے ساتھ ۱۸۹۴ کا چاند سورج گرھن اور ۱۹۰۲ مین طاعون کا نشان شامل ہے۔ ان کا ذکرالہی نوشتوں میں موجود ہے۔ آپ کے دعوی کے بعد آپ کی سخت مخالفت ہوئی اور آپ اور آپ کی جماعت کو سخت ابتلاوں سے گذرنا پڑا مگروہ بتدریج اپنی منزل کی طرف بڑھ رھی ہے اور اب تک دنیا کے ۱۶۵ ممالک مین اس کی مضبوط شاخیں قایم ہیں

بانی سلسلہ احمدیہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ بمقام لاہور خدا کے حضور حاضر ہو گئے۔ آپ کے بعد خلافت احمدیہ کا سلسلہ شروع ہوا ۔۱۹۴۷ میں جماعت نے تقسیم ہند کے بعد اپنا مرکز قادیان سے ربوہ بنایا۔ اس وقت جماعت کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ہیں جنہوں نے پاکستان کے نا مسائد حالات کی وجہ سے اپنی سکعنت لندن میں اختیار کی ہوئی ہے اور وہاں سے اسلام کی اشاعت کے کام کی نگرانی کر رہے ہیں۔ آپ کا خطبہ جمعہ اور دیگر اہم خطبات ایم ٹی ای چینل کےذریعے تمام دنیا میں دیکہے اور سنے جاتے ہیں۔

اسلام کی خدمات
۱۰۰ زبانوں سے زیادہ میں قرآن کریم کا ترجمہ و احادیث رسول صعلم کا ترجمہ
دنیا بھر میں مساجد کی تعمیر، جن میں اسپین کی ۷۰۰ سال بعد مسجد کی تعمیر اور براعظم آسٹریلیا لی پہلی مسجد شامل ھے۔
دکھی انسانیت کی خدمت میں وسیع پروگرام جن میں اسکول کالج ہسپتال اور غربا کے لئے مکانات کی تعمیر
بوسنیا،بھارت،اور کشمیر ک اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی امداد ۔
تحریک پاکستان میں جب دیگر علماہند نے پاکستان کی مخالفت کی اس ضمن میں گرانقدر خدمات کا انجام دینا۔

شرائط بعیت کا خلاصہ

شرک سے اجتناب
جھوٹ، زنا اور دیگر بدیوں سے بچنا
نماز پنچگانہ اور تہجد کی ادائیگی-درود شریف اور استغفار پڑھنا اور اللہ کی حمدوثنا کرنا
اللہ کی مخلوق کو تکلیف نہ دینا
اللہ کے ساتھ وفاداری اور اس کی رضا پر راضی رہنا
قرآن کریم کی تعلیمات پر کاربند ہونا
تکبر اور نخوت سے بچاو
دین کو دنیا پر مقدم رکھنا
ہمدردی خلق
امام مہدی سے پختہ تعلق

اختلافی مسائل
مرزاغلام احمد قادیانی
امام مہدی کو ماننا ضروری ہے
وفات مسیح
حدیث لا نبی بعدی
بزرگان امت کے نزدیک خاتم النبین کا مسلہ
اسلام میں ارتداد کی سزا
شرائط بعیت
متفرق مسائل

0 Comments:

Post a Comment

<< Home