Monday, June 12, 2006

اے کاش کوئ محسوس کرے

کھبی الفاظ کے گورکھ دھندوں میں
اوران چاہی سی چاہت میں
مجھے پاس بلاؤ تم اپنے
وہ بات سنو جو کہتا ھوں
وہ محسوس کرو جو کرتا ہوں
یہ لمحے گذرتے جاتے ہیں
وہ آس بکھرتی جاتی ھے
یہ سانس اکھڑتی جاتی ھے
ان لمحوں کا ان زخموں سے
کیا رشتہ تھا، کیا ناطہ ہے
جو زخم ملے ہموطنوں سے
اور دکھ بانٹے جو غیروں سے
اس دکھ کا مداوا کون کرے
اس زخم کا مرہم کون بنے
اے کاش کوئ محسوس کرے
اے کاش کوئ محسوس کرے

0 Comments:

Post a Comment

<< Home