اے کاش کوئ محسوس کرے
کھبی الفاظ کے گورکھ دھندوں میں
اوران چاہی سی چاہت میں
مجھے پاس بلاؤ تم اپنے
وہ بات سنو جو کہتا ھوں
وہ محسوس کرو جو کرتا ہوں
یہ لمحے گذرتے جاتے ہیں
وہ آس بکھرتی جاتی ھے
یہ سانس اکھڑتی جاتی ھے
ان لمحوں کا ان زخموں سے
کیا رشتہ تھا، کیا ناطہ ہے
جو زخم ملے ہموطنوں سے
اور دکھ بانٹے جو غیروں سے
اس دکھ کا مداوا کون کرے
اس زخم کا مرہم کون بنے
اے کاش کوئ محسوس کرے
اے کاش کوئ محسوس کرے
اوران چاہی سی چاہت میں
مجھے پاس بلاؤ تم اپنے
وہ بات سنو جو کہتا ھوں
وہ محسوس کرو جو کرتا ہوں
یہ لمحے گذرتے جاتے ہیں
وہ آس بکھرتی جاتی ھے
یہ سانس اکھڑتی جاتی ھے
ان لمحوں کا ان زخموں سے
کیا رشتہ تھا، کیا ناطہ ہے
جو زخم ملے ہموطنوں سے
اور دکھ بانٹے جو غیروں سے
اس دکھ کا مداوا کون کرے
اس زخم کا مرہم کون بنے
اے کاش کوئ محسوس کرے
اے کاش کوئ محسوس کرے
0 Comments:
Post a Comment
<< Home