Friday, June 23, 2006

سوچو کھبی ایسا ھو تو کیا ہو

یورپی ممالک بشمول امریکہ، کینڈا اور بیشتر عیسائ ممالک کی پارلیمنٹ ایک اہم قانون کا مسودہ منظور کرنے کے لئے پیش کرا چاھتی ہے جس کا نام انہوں نے قانون برائے تحفظ مذھب رکھا ہے۔ اس قانون کے چنیدہ امور مندرجہ ذیل ہیں۔

ملک میں عیسائیت کے علاوہ اور کسی مذہب کی تبلیغ کی اجازت نہیں ہو گی۔اگر کوئ فرد اس جرم کا مرتکب پایا گیا تو تعزیرات ملک کے مطابق اس کی سزا موت ہو گی، لیکن اگر عوام چاہیں تو مجمع اکھٹا کر کے مجرم کو موقع پر ہی موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں۔

آزادی ضمیر کے تحت ہر شہری کو خواہ وہ کسی بہی مذہب سے تعلق رکھتا ہو عیسائیت اختیار کرنے کا پورا حق ہو گا۔ لیکین اس بات کی آزادی نہ ہوگی کہ وہ عیسائیت کو چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کرے۔ایسے مرتد کی سزاحکم فرزند خدا صرف اور صرف موت ہو گی۔

تحفظ ناموس عیسائیت کے مطابق ہر وہ شخص جو حضرت عیسی کو خدا کا بیٹا نہیں مانتا یا تثلیث کا قائل نہیں ہے۔ مرتد، زندیق اور واجب القتل ٹھرایاجائے گا-قانون کے مطابق یا بغیر کسی واضح ثبوت کے ایسے شخص کو قید کرنا اور قتل کرنا نہ صرف جائز بلکہ عیسائیت کے واضح احکام کے مطابق ہوگا۔

عام شہریوں [ صرف عیسائ] کو اس بات کی اجازت ہو گی کہ تحفظ ناموس عیسائیت کا سہارا لے کر کسی بہی غیر عیسائ سے اپنا ذاتی عناد اور دشمنی نکال سکتے ہیں۔ اس بارے میں ان پر کسی قسم کے قانون کا اطلاق نہ ہو گا اور نہ ہی کوئ باز پرس ہو گی۔

اقلیتوں کے تحفظ کی خاطر اس بات کو یقینی بنایا جائے گا۔ کہ غیر مذہب کے لوگ نہ تو اپنی عبادت گاہ بنا سکیں نہ ہی عوامی جگہ اور اپنے ذاتی گھروں میں کسی قسم کی عبادت کر سکیں۔اس قانون کی خلاف ورزی پر کم از کم سزا موت کی ہو گی۔یہ قانون اس بات کی ضمانت ہو گا کہ ملک میں امن و امان رہے اور کسی قسم کا فرقہ وارنہ فساد نہ ہو

ہر وہ عمل جس سے کسی عیسائی کی دل آزاری ہوتی ہو۔ناقابل معافی و ضمانت جرم ہو گا۔دل آزاری کی تعریف ہر شخص کی ذاتی رائے پر منحصر ہو گی۔عوام چاہے تو سزا کا فیصلہ خود بھی کرسکتی ہے۔

خدا ، نبی ؛ فرشتہ ۔ کتاب مقدس کے الفاظ ہیں-غیر عیسائ جب ان الفاظ کو استعمال کرتا ہے تو اس سے ملک کی ایک بڑی آبادی کی دل آزاری ہوتی ہے۔ اس لئے قانون کے مطابق اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کوئ ان الفاظ کا استعمال نہ کرے۔مرتکب کم از کم موت کی سزا کا حقدار ہو گا۔

غیر عیسائ عوام ملک کے حساس اداروں مثلا فوج،پولیس، عدلیہ میں ملازمت کے حقدار نہ ہونگے۔جو لوگ ابھی تعینات ہیں ان کو ایک مخصوص طریق سے دیوار کے کنارے لگایا جائے گا۔

دوہرے طریق انتخاب کے مطابق غیر عیسائ صرف مخصوص نشستوں پر انتخاب لڑنے کا اہل ہو گا،ان نمائندوں کا انتخاب صرف بیرونی مبصروں کو خوش کرنے کے لئے ہو گا نیز ملک کے اہم سیساسی امور میں ان نمائندوں کی رائے کی اہمیت نہیں ہو گی۔

وہ تمام کتب و رسائل اور دیگر موادجو عیسائیت کے خلاف خیالات رکھتی ہیں یا عیسائیت کی تعلیم سے مطابقت نہیں رکھتیں بحق سرکار ضبط کر کے تلف کی جائیں گی۔سرکار اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ سرکاری کتب خانوں میں عیسائیت کے علاوہ کسی اور مذیب کے متعلق کتب موجود نہ ہوں۔

سرکاری سطح پر اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ چرچ ہر ا توار کو دعا کے بعد خصوصی درس کا انتظام کریں جس میں کم از کم دس لوگوں کو اس بات پر تیار کیا جائےکہ غیر عیسائ کی املاک پر حملہ کیا جائے اور ہو سکے تو پانچ سات کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ ایسے لوگوں کو موت کے بعد جنت اور فرزندخدا کی قربت کی بشارت دی جائے گی۔

غیر عیسائیوں کی عبادت گاہوں سے ہر قسم کی عبارت اور کلمے مٹائے جائیں گے۔تاکہ کسی قسم کے نقص امن کا خطرہ نہ ہو۔

کروسیڈ چونکہ ہر عیسائ پر فرض ہے اسلئے سرکاری سطح پر خود کش بمبار اور کروسیڈرز تیار کئے جائیں گے جو دوسرے ممالک میں انارکی پھیلائیں گے۔

حکومت ہر سطح پر اس بات کو لاگو کرے گی کہ تمام غیر مذاہب کے لوگ زرد رنگ کے کپڑے پہن کے باہر نکلیں تاکہ ان کی شناخت ہو سکے۔ ان کو پابند کیا جائے گا کہ ہر مہینےوہ جاکر وہ محکمہ وزارت مذہبی امور میں اپنا اندارج کرائیں چونکہ یہ قانون ملک کی شخصی آزادی سے سو فیصد مطابقت رکھتا ہے اسلئے ملک کے پاسپورٹ اور شناختی کاغذات میں مذہب کے خانے کا اندارج کیا جائے گا جس سے ایسے تمام افراد کی فوری شناخت ممکن ہو اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی جلد از جلد ممکن ہو سکے۔

سوچو کھبی ایسا ھو تو کیا ہو

3 Comments:

At 8:44 PM, Blogger Shoiab Safdar Ghumman said...

اس خبر کی تصدیق کہاں سے ہو سکتی ہے؟؟؟؟

 
At 10:40 AM, Blogger راہ مقتل said...

جناب والا یہ ایک ہلکہ سا طنز ہے اس مسلم معاشرے پر جس کے ہم اور آپ سبھی زخم خوردہ ہیں

 
At 10:45 AM, Blogger میرا پاکستان said...

اس طنز کي ہميں تو سمجھ نہيں آئي

 

Post a Comment

<< Home