Tuesday, July 04, 2006

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

بی بی سی کے مجتبی حسن صاحب کی تحریر
خاکسار نے صرف کاپی پیسٹ اور عنوان دیا ہے، باقی سارا کریڈٹ مجتبی صاحب کے ذمے، خیال ہے کہ ہماری سیاسی تاریغ کے گمشدہ اوراق کا ہر ایک کو پتہ ہونا چاھیے
پاکستان میں اگرچہ سیاسی حوالوں کی بنا پر گم شدگیوں یا لا پتہ ہونے کی تاریخ کے روایتی دستاویزی شواہد نہیں ہیں لیکن محتاط
اندازے کے مطابق اس کی ابتداء پچاس کے عشرے سے ہی ہو گئی تھی۔

راولپنڈی سازش کیس کے سوا اس دور میں گمشدگیاں اتنی لمبی نہیں ہوتی تھی جو بعد کے ادوار سے موجودہ مشرف دورِ حکومت تک دیکھنے میں آئیں۔

فروری انیس سو اکیاون میں نام نہاد ’راولپنڈی سازش‘ کیس بنا اور اس میں تب کے میحر جنرل اکبر خان کی سربراہی میں بری اور فضائی فوج کے افسران کے ساتھ فیض احمد فیض سمیت بائیں بازو کے بہت سے رہنماؤں، کارکنوں، ادیبوں، دانشوروں اور ٹریڈ یونینسٹوں کو ملوث دکھایا گیا اور پورے ملک میں خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کے ایک بڑے آپریشن میں راتوں رات لوگوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا۔

تبھی پاکستان بننے کے بعد لاہور کے تاریخی شاہی قلعے کے تہہ خانوں میں خفیہ عقوبت خانوں کو پہلی بار استعمال کیا گیا جو پہلے بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کیئے جانے کی تاریخ رکھتے تھے لیکن اس بار ان کی رونق ’راولپنڈی سازش کیس‘ کے وہ اسیر تھے جنہیں تفتیش کے نام پر اٹھایا یا اغواء کیا گیا تھا۔

حسن ناصر نو آزاد مملکت خداداد کے وہ پہلے گمشدہ سیاسی کارکن تھے جنہیں گرفتار کرکے شاہی قلعے میں عقوبتیں دے کر ہلاک کیا گیا۔

’قلعۂ لاہور تیرا ایک قیدی مرگیاتھم گیا شورِ سلاسل کٹ گئی زنجیر پا‘

بہت دنوں بعد حبیب جالب نے حسن ناصر کی لاہور کے شاہی قلعے میں ریاستی تشدد میں ہلاکت پر لکھا تھا۔

انیس سو پچاس کی ہی دہائی میں ہی جب وفاق پاکستان ’مضبوط مرکز‘ کے نام پر چھ یونٹوں یعنی پانچ صوبوں اور ایک ریاست کو دو حصوں: مغربی اور مشرقی پاکستان کی شکل دینے کے لیئے ’ون یونٹ‘ کا نظام متعارف کرایا گیا۔ اس کی مخالفت بنگال اور سندھ کے منتخب ارکانِ اسمبلی نے سب سے زیادہ کی تھی۔

محمد ایوب کھوڑو جیسے ’مرد آہن‘ کو سندھ کا وزیر اعلیٰ بنوا کر سندھ اسمبلی سے ون یونٹ کے حق میں اکثریتی ووٹ دلوانے کا فریضہ سونپا گیا۔

میر غلام علی تالپور کو سندھ اسمبلی کے اجلاس کی صدارت سے روکنے کیلیئے اونٹ پر بٹھا کر دور دراز صحرائے تھر کے شہر مٹھی بھیج دیا گیا اور سندھ اسمبلی سے ون یونٹ کے حق میں ’اکثریتی ووٹ‘ ملنے کے بعد رہا کیا گیا۔

محض گھنٹوں پر مشتمل میر غلام علی تالپور کے اغواء کا یہ واقعہ پاکستان کی نوزائدہ مملکت میں کسح منتخب رکن اسمبلی کے خلاف سیاسی بنا پر ریاستی اغواء کی پہلی واردات تھا۔

سندھ کے موجودہ وزیر اعلی ارباب غلام رحیم کا گاؤں مٹھی تبھی سے حکومت وقت کے سیاسی مخالفین کے لیئے ایک ڈراؤنا خواب بنا ہواہے۔

جنرل ایوب خان اور یحیٰی خان کے دنوں میں بلوچ قوم پرست اور نیپ کے کارکنوں کی گمشدگیاں اور ان پر کوئٹہ کے’ کلی کیمپ، مچھ، میانوالی اور ملتان‘ کی جیلوں، فورٹ سنڈیمن اور بالا حصار کے تفتیشی مراکز میں خفیہ ایجینیسوں کی پُر تشدد کارروائیوں کی اطلاعات عام تھیں۔

لیکن 1971 میں سابقہ مشرقی پاکستان اور پھر بلوچستان میں 1973 کے فوجی آپریشنوں کے دوران گم کیئے جانے والے بنگالی اور قوم پرست کارکنوں کا کوئی شمار نہیں۔

سنہ انیس سو پینسٹھ اور 1971 کی ’پاک بھارت جنگوں‘ کے دوران بھی مبینہ طور سندھ سے ہندو شہریوں کو مہینوں تک کسی بھی طرح کی اطلاع، اندراج اور مقدمات کے بغیر ’نامعلوم مقامات‘ پر نظربند رکھا گیا تھا۔

ایوب خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں سیاسی مخالفوں کے خلاف زبردست انتقامی کارروائیوں کے لیئے پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کا استعمال نہ صرف ’آرڈر آف دی ڈے‘ بن چکا تھا بلکہ اس کا دائرہ سیاسی مخالفین عزیزوں اور اہل خانہ تک پھیل گیا۔

ممتاز علی بھٹو کو 1973 میں سندھ کا وزیراعلٰی بنایا گیا ان کے دور میں انجنئيرنگ کالج جامشورو سے نوجوان لیکچرر اشوک کمار کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد سے اب تک ان کے بارے کچھ پتہ نہیں چل سکا۔

اسی طرح بلوچ قوم پرست رہنما عطاءاللہ مینگل کے بیٹے اسد اللہ مینگل بھی 1976 میں ریاستی ایجنسیوں کے ہاتھ چڑھے اور آج تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے مشہور سیاسی مخالف اور چودھری شجاعت کی والد چودھری ظہور الہی کو بھی بغیر مقدمات کے مہینوں تک مچھ اور کراچی سنٹرل جیلوں میں کسی ریکارڈ کے بغیر رکھا گیا بلکہ مچھ سینٹرل جیل میں تو انہیں مبینہ طور ہلاک کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا تھا جسے اس وقت بلوچستان کے گورنر نواب اکبر بگٹی نے ناکام بنا دیا۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظفرآباد کے قریب دریائے جہلم کے کنارے پُرفضا سرکاری ریسٹ ہاؤس میں جسے ’دلائی کیمپ‘ کے طور پر بھی جانا جاتا تھا، لمبی مدت تک بھٹو حکومت نے مخالف اراکینِ صوبائی میاں افتخار تاری اور دیگر ارکان کو اسیر کیا اور مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا۔

اس کے بعد ضیاءالحق اور ان کی فوجی آمریت کے مخالف سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو سینکڑوں کی تعداد میں آئی ایس آئی اور دیگر فوجی و سول ایجنسیوں نے اغواء کیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

شاہی قلعہ لاہور، ملیر کراچـی، ملتان، لاہور، حیدرآباد اور کوئٹہ کی فوجی چھاونیاں، اٹک قلعہ، کلی کیمپ کوئٹہ، نیپیئر بیرکس کراچی میں قائم مراکز سینکڑوں عقوبت خانوں میں سے وہ چند ہیں جہاں ضیاء حکومت کے سیاسی مخالفوں اور پیپلز پارٹی اور الذوالفقار کے رکن ہونے اور رکن ہونے کے شک میں سینکڑوں مردوں، عورتوں حتٰی کہ بچوں کو بھی غائب کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

کئي ماہ و سالوں تک ’لاپتہ‘ اور زیر تشدد رکھے جانیوالے ان سینکڑوں لوگوں میں 'لیبیا سازش کیس' کے نام پر آغا نوید انکے بہن بھائی اورتمام گھر والے، پیپلز پارٹی کی شاہدہ جبین، ادریس طوطی اور عثمان غنی (جنہیں بعد میں پھانسی دے دی گئي)، ’چاچا صفدر ہمدانی، برگیڈيئر ‏عثمان، میجر آفتاب، لیاقت وڑائچ، چودہری غلام قادر، صوبہ سرحد سے شمس بنیری، فرخندہ بخاری، اور بلوچستان سے حمید بلوچ (جنہیں بعد میں پھانسی دے دی گئی)، جیب جالب بلوچ، صادق عمرانی اور غلام محمد بلوچ اور سندھ سے امداد چانڈیو، محمد خان سولنگی، شیر محمد منگریو، سہیل سانگی، احمد کمال وارثی، شبیر شر' علی حیدر شاہ ، اور قادر جتوئی فقط چند نام ہیں جو اس وقت ریاستی اغواء، غیر چانونی حراست اور حبسِ بے جا کا نشانہ بنے۔

بائيں بازو سے تعلق رکھنے والے سندھی طالبعلم رہنما نذیر عباسی کو کراچی میں فوجی ایجنسیوں کے ہاتھوں تشدد کرکے ہلاک کیا گیا۔ جب کہ جام ساقی کے فوجی ایجنیسوں کی تحویل میں کئی ماہ تک لاپتہ رہنے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو کر ان کی اہلیہ سکھاں جام نے تھر کے گہرے کنویں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔

نذیر عباسی کی بیوہ اور ان کے ساتھی اس ہلاکت کا الزام اس وقت سندھ میں آئی ایس آئی اے کے انچارج کرنل امتیاز (جو بعد میں بریگیڈئر امتیاز کہلائے ) پر لگاتے ہیں۔

انیس سو چورانوے میں بینظیر بھٹو حکومت نے سرکاری تحویل میں تشدد کے ذریعے نذیر عباسی کی ہلاکت کے الزام میں سابق بریگیڈئر امتیاز اور چند فوجی افسروں اور اہلکاروں پر مقدمہ بھی دائر کیا تھا لیکن اس پر کوئی کارروائی سامنے نہیں آ سکی۔

ضیاءالحق کے دنوں میں گم ہونے والے مخالف سیاسی رہنماؤں میں معمر سیاستدان خواجہ خیرالدین، پیپلز پارٹی کے پیار علی الانہ اور غالباً پرویز علی شاہ چند نمایاں نام تھے جنہیں مہینوں تک ملیر کی چھاؤنی میں رکھا گیا تھا۔

سندھ میں جام صادق علی کا دورحکومت مخالف لوگوں کے لیئے ضیاءلحق کی ’ایکسٹینشن‘ ہی سمجھا گیا تھا جس میں خاص طور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں، منتخب ارکان اسمبلی اور الذوالفقار سے تعلق کے نام پر کئی نوجوانوں کو وقتاً فوقتاً سرکاری ایجنسیوں کے ہاتھوں غائب کیا جاتا رہا۔

جام صادق علی کے دنوں میں ’الذوالفقار‘ سے تعلق کے نام پر بیس سے زائد نوجوانوں کو گرفتار کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں مہینوں لاپتہ رکھا گیا۔ جب کہ سیاسی اختلاف رکھنے والی اور سیاسی مخالفین سے رشتہ یا تعلق رکھنے والی عورتوں کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتیاں بھی کی گئی جن میں تحریک پاکستان کے رہنما سردار شوکت حیات کی بیٹی وینا حیات اور پی پی پی کارکن عیسی بلوچ کی بیوی شامل ہیں۔

سی آئی اے سینٹر کراچی، خیرپور ضلع کے کچے کا تھانہ سوراہ اور پولیس لاک اپ مٹھی بھی گمشدہ سیاسی مخالفین کے بندی خانوں کے طور پر جانے جاتے تھے۔

سی آئی اے سینٹر کراچی میں مبینہ طور تشدد سے گزرنے والی خواتین میں سندھ اسمبلی کی موجودہ ڈپٹی سپیکر راحیلہ ٹوانہ بھی شامل تھیں اور ظاہر ہے کہ اس دوران انہیں قانونی طور پر حراست میں نہیں لیا گیا تھا۔

نواز شریف کے دور حکومت میں سندھ میں فوجی آپریشن اور بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں مبینہ طور پر ایم کیو ایم یا موجودہ متحدہ قومی موومنٹ کے کوئی دو سو کے قریب کارکن گم ہوئے جن کے بارے میں آج تک معلوم نہیں۔

ان ادوار میں حیدرآباد اور کراچی میں تو پولیس کے اے ایس آئی سطح کے اہلکاروں نے بھی اپنے خفیہ اور ذاتی ’سیف ہاؤسز‘ قائم کر لیئے تھے جہاں ایم کیو ایم اور دوسرے حکومت مخالف کارکنوں کو قید رکھا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

اسلام آباد اور راولپنڈی میں آئی بی اور دوسری خفیہ ایجینسیوں کے بھی ’سیف ہاؤسز‘ تھے جہاں سے ایم کیو ایم کے گمشدہ ایم این اے کنور خالد یونس ایک عرصے بعد برآمد ہوئے تھے۔ یہاں یہ ذکر نا مناسب نہ ہوگا کہ اکثر ایجنسیوں اور خاص طور پر مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے اداروں کو گرفتاریوں اور خاص طور پر سویلین لوگوں کی گرفتاریوں کا اختیار حاصل نہیں ہے اور نہ ہی یہ ان کے دائرۂ عمل میں شامل ہوتا ہے۔

کراچی اور سندھ آپریشن کے دوران ایس ایج او کی سطح کے پولیس افسر ائیر پورٹ سے ٹیک آف کرتے ہوئے مسافر بردار طیاروں کو واپس لینڈ کروا لیتے اور ان پر سوار ایم کیو ایم کے کارکنوں کو اتار کر مہینوں نامعلوم مقامات پر رکھنے کے بعد یا تو اعتراف کرانے کے بعد سامنے لاتے تھے یا جعلی مقابلوں میں ہلاک دکھا دیتے تھے۔

اہل میثاق جمہوریت (بینظیر بھٹو اور نواز شریف) کی دونوں حکومتوں میں مخالف سیاسی کارکنوں کا یہ ’علاج‘ نکالا ہوا تھا کہ پہلے وہ لاپتہ ہوتے اور پھر ان کی تشدد زدہ یا گولیوں سے چھلنی لاشیں کبھی ایدھی سینٹر والوں کو ملتی تو کبھی بوریوں میں بند۔

نواز شریف دور حکومت میں دودو مہری، عبدالواحد آریسر اور اندر جیت کو بھی مہنیوں فوجی چھاؤنیوں میں زیر حراست رکھا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد اگرچہ ایک الگ موضوع ہے لیکن غیر قانونی حراست اور تشدد لازم و ملزوم ہیں۔

ایف آئی یو (فیڈرل انٹیلیجنس یونٹ ) نے اوٹھو قبیلے کے ایک خاندان کو ڈیڑہ سال تک بغیر کراچی لے جا کر غائب رکھا اور ان میں میں عورتیں اور شیر خوار بچے تک شامل ہیں۔

مجھے نہیں معلوم کے راولپنڈی کی اس انصاری فیملی کا آخر کار کیا بنا تھا جسے آئی ایس آئی نے ’قومی سلامتی‘ کی وجہ سے اغواء کیا تھا اور پھر کئی سال تک ان کا کچھ پتہ نہیں چل سکا تھا۔

نواز شریف حکومت کے خاتمے پر مشرف حکومت نے تو اپنی شروعات ہی سیاسی مخالفین کی گمشدگی سے کی تھی۔ ان کے تب کے گم کردہ سیاسی مخالفین میں سے ایک مثال صدیق الفاروق ہیں جنہیں مبینہ طور ملٹری پولیس کے کرنل ایاز احمد اور میجر ارشد نے گرفتار کیا اور انہیں اقبال ملٹری بیرکس کراچی میں کئی دنوں تک ان کے گھر والوں سے لاپتہ رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس میں ان کی پیٹھ پر کوڑے مارنا بھی شامل تھا۔

بعد میں اپنی قید سے یہ تمام بپتا صدیق الفاروق نے ایک خط میں اپنی اہلیہ کو لکھی۔ مشرف حکومت نے انہیں مہینوں بعد رہا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’صدیق الفاروق کو کہیں رکھ کر بھول گئے تھے‘۔ جب کہ نواز شریف حکومت اور پارٹی کے تب کے ارکان مشاہد حسین ، چودھری نثار علی، پرویز رشید، اور ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار کو ایک سال سے زائد عرصے تک بغیر کسی مقدمے قید تنہائي میں رکھا گیا۔ بعد میں مشاہد حسین نے مشرف حکومت کے ’ہاتھ پر بیعت کرلی‘۔

سن انیس سو ننانوے سے لے کر اب تک پـچھلے چند سال کے دوران گرفتار ہو کر مبینہ طور ’گمشدہ ہونیوالے‘ سیاسی کارکنوں کی تعداد وفاقی وزیر داخلہ بھی بعض اوقات چار ہزار تک بتاتے رہے ہیں اور بعض واقات اس کی تردید کرتے رہے ہیں۔

اور اسی طرح پنجاب پولیس منڈی بہاءالدین سے گرفتار کیئے گۓ عاطف جاوید کی گرفتاری کی تردید کرتی رہی ہے۔

ان گمشدہ لوگوں میں بلوچستان کے گاؤں مند بلو کے ساٹھ سالہ فیض بلوچ بھی شامل ہیں جو حال ہی ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔

فیض بلوچ نے ساحلی بلوچستان کے کچھ مقامی اخباری نمائندوں کو اپنے پر ہونیوالے تشدد کی بپتا کے بارے میں بتایا تھا کہ انہیں پنڈلیوں کے بل گھنٹوں ہوا میں معلق رکھا جاتا تھا اور جب وہ بے ہوش ہو جاتے تو ان کے ہاتھ پاؤں کا مساج کر کے ہوش میں لایا جاتا اور پھر سے تشدد شروع کر دیا جاتا۔ تشدد سے ان کے جسم پر زخم پڑ گۓ۔ بقول فیض بلوچ کے ان زخموں میں نمک چھڑکا گیا جس سے ان کا ایک بازو نارکارہ ہوچکا ہے۔

اسی طرح بلوچستان سے ایک مقامی ٹیچر استاد عبدالستار بلوچ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہیں اغواء کر کے ان کے جسم کو مبینہ طور جلتی سگریٹوں سے داغا گیا۔ بلوچ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر امداد بلوچ کے ساتھ گرفتار ہونے والے اور تشدد سہنے والے ان کے ایک ساتھی اللہ نظر بلوچ کی آنکھیں بری طرح متاثر ہوئي ہیں۔

کوئٹہ، کراچی اور حیدرآباد پریس کلبوں کے باہر اکثر مرد عورتیں اور بچے ان سینکڑوں سیاسی کارکنوں کی تصاویر اٹھائے کھڑے دکھائی دیتے ہیں جن کے بارے میں وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ انہیں کون لے گیا ہے اور کہاں لے گیا ہے لیکن ان کی خواہش صرف اتنی ہوتی ہے کہ اخبار والے ان گمشدہ عزیزوں کے بارے میں کوئی چھوٹی موٹی خبر ہی شائع کر دیں۔ اس کا مقصد عدالتوں کو توجہ کرنا ہوتا ہے تاکہ اگر اب تک انہیں ہلاک نہیں کیا گیا تو ان کی جان بچ سکے اور ان کے لوٹ آنے کا امکان پیدا ہو سکے۔

تبصرہ: ان حالات میں پارلیمنٹ کے کئے گئے فیصلوں کی کیا حثیت رہ جاتی ہے۔

1 Comments:

At 3:06 PM, Blogger Noumaan said...

بہت محنت سے لکھی گئی بڑی پختہ تحریر ہے۔ جب تک تعلیم عام نہ ہو اور عوام کو اپنے حقوق کا ادراک نہ ہو تب تک یہ توقع رکھنا بہت مشکل ہے کہ انسانی حقوق کی ایسی سنگین خلاف ورزیوں پر وہ کچھ کرسکیں گے لیکن اگر ہم سب ملکر تھوڑی تھوڑی آواز اٹھاتے رہیں جیسے آپ نے اٹھائی ہے تو ہوسکتا ہے بیداری کی کوئی لہر پیدا ہو۔

 

Post a Comment

<< Home